منوررانا کامہاجرنامہ
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کہہ کے دنیا اس لئے ہم کو ستاتی ہے
کہ ہم آتے ہوئے قبروں میں شجرہ چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی ہماری تھی
کہ ہم بستر پہ اک ہڈی کا ڈھانچہ چھوڑ آئے ہیں
کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی پتلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں
must read
must read
0 comments: